﷽
سٹاک مارکیٹ میں تجارت کا رحجان آئے روز بڑھتا جارہا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ منا سب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ٹریڈرز کی اکثریت نقصان میں رہتی ہے جبکہ صرف چند لوگ منافع کماتے ہیں۔مگر المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں نہ تو کوئی دیانت داری سے سیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی سیکھانا۔ ہر شخص راتوں رات امیر ہونے کے خواب آنکھوں میں سجائے مارکیٹ میں آتاہےاور اپنی سالوں کی جمع پونجی چند دنوں میں لٹانے کےبعد مارکیٹ کو کوستے ہوئے چلا جاتا ہے۔لوگ اپنی کوتاہیوں کا الزام مارکیٹ کو دیتے ہیں۔ مگر کوئی بھی اپنی کوتاہیوں پہ نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔حقیقت تو یہ بھی ہے کہ 95فیصد لوگ غلطی سے سٹاک ٹریڈنگ کے کاروبار میں آ جاتے ہیں نہ تو وہ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی انھیں کبھی ایسا سوچنے کا موقع ملتا ہے۔سٹاک مارکیٹ میں کام کرنےوالے چند ایک ٹریڈرز کے سوا تقریبَا تمام لوگ ٹریڈنگ کرنے آتے نہیں بلکہ انہیں گھسیٹ کر مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔کھبی دوست اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں کے رنگ میں رنگ کر ایسے رنگٰین جال بنتے ہیں کہ سادہ لوح لوگ سٹاک مارکیٹ کو سونے کی کان سمجھ کر اس میں بلا سوچے سمجھے چھلانگ لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں تو کبھی بروکرز کے رنگین خواب عام آدمی کو گھیر کر سٹاک مارکیٹ کی طرف لے آتے ہیں۔میں یہ باتیں محظ اندازوں کی بنا پر نہیں لکھ رہا بلکہ یہ ساری باتہں پچھلے بارہ سالوں میں میرے سامنے سے ہزار ہا بار گزر چکی ہیں۔میں نے سات سال بروکریج انڈسٹری میں مینجمنٹ سیٹس پربیٹھ کر اور اس کے بعد اپنے ریسرچ ہاوس کے کیبن میں مزید چھ سال ایسے ہزار ہا انویسٹرز کی یہی کہانی کئی بار سنی ہے۔
سٹاک مارکیٹ میں آنے والا تقریبا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنا کاروبار یا نوکری تو کرتا رہے پر سٹاک مارکیٹ میں ٹریڈنگ ایک ذیلی کاروبارکی حیثیت سے آئے روز اس کے منافع میں اضافہ کرتی رہے لیکن اگر حقیقت کی نظروں سے دیکھا جاے تو ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ہر دوسرا شخص یہ ہی چاہتا ہے کے اسکو روزانہ ایک فون کال پر یہ پتہ چل جائے کہ آج کیا خریدنا ہے اور کیا بیچنا ہے ۔اسکا بروکر یا دوست اس کے لیے کام کرے ۔ مگر کوئی بھی ملازمت پیشہ یا کاروباری شخص یہ حقیقت ماننے کو تیار نہٰٰیں ہوتا کہ اگر وہ ملازمت کر رہا ہے تو تیس سے پچاس ہزار کی تنخواہ کے لیے وہ روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے کام کرتا ہے اور اگر وہ کاروبار کر رہا ہے تو اپنا پیسہ انویسٹ کرنے کے باوجود بھی روزمرہ کی بنیادوں پر اپنے اس کاروبارکو کم ازکم دس گھنٹے ضرور دیتا ہے تب جا کر وہ اس کاروبار سے کچھ کمانے کے قابل ہوپاتا ہے ۔تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی ۔شخص سٹاک مارکیٹ میں صرف پیسہ لگائے اور مہینے کہ آخر پہ منافع خود بخود اس کے گھر یا بنک اکاونٹ میں پہنچ جاے۔حقیقت تو یہ بھی ہے ک جس بروکر یا بروکر کے ایجینٹ کے ساتھ آپ سٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کر رہے ہو وہ بھی تو کاروبار ہی کر رہا ہے۔اور پاکستان میں بروکریج انڈسٹری کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کوئی بھی بروکر اپنے ایجنٹس کو سوائے مارکیٹنگ کے کوئی اور تربیت نہیں دیتا۔ اور نئے ملازمین کو صرف یہ سکھایا جاتا ہے کہ انہوں نے کلائینٹ کو انویسٹ کرنے کے لیے کیسے تیار کرنا ہے نہ کے انویسٹ کیسے اور کب اور کہاں کرنا ہے۔ بروکریج انڈسٹری میں گزارے ہوئے سات سال کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ جب آپ ایک نوجواں جو کہ حال ہی میں فارغ التحصیل ہوا ہو کو صرف یہ ترغیب دیں کہ اگر آپ کے کلائینٹ مہینے میں تیس ٹریڈز کریں گے تو آپ کی تنخواہ میں پندرہ ہزار روپے کا اضافہ ہو جائے گا تو اس نوجوان کی کبھی بھی یہ ترجیح نہیں ہو گی کہ اس کا کلائینٹ بیشک کم سودے کرے پر اس کے کلائینٹ کے کیپٹل میں ہر مہینے کچھ نہ کچھ اضافہ ہونا چاہیےبلکہ اس کی سب سے پہلی ترجیح یہ ہو گی کہ اس کا کلائینٹ زیادہ سے زیادہ ٹریڈزکرے۔تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ کمیشن کما سکے چاہے اس کے کلائینٹ کا نقصان ہی کیوں نہ ہوتا رہے۔
ان سارے حقائق کے ہوتے ہوئے بھی مزید ستم ظریفی یہ کہ اگر بروکر کے اس نو عمر ایجنٹ کو یہ شہ بھی مل جائے کہ جس مہینے اس کے کلائینٹس کی ٹریڈز تیس سے تجاوز کر جائیں گی اس ماہ اس کو کمیشن کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار روپے کا بونس الگ سے ملے گا تو ہر ذیشعور آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اسکا ایجنٹ اس کے حق میں کس قدر سوچے گا۔ہاں ایک اور دلچسپ حقیقت کا احوال تو بتانا میں بھول ہی گیا۔ آپ خود ہی تصور کیجیے کہ اگر بروکر اپنے ملازمین کو کسی بھی اشد مجبوری کے عالم میں دفتر سے غیر حاضری سے سختی سسے منع کرتا ہو پر مینجمنٹ لڑکے کو اس کی گرل فرینڈ سے ڈیٹ پہ جانے کے لیے چھٹی جھٹ سے دے دے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کو کیش بھی مینجر اپنی جیب سے دے دیں تو آپ کو اس منطق کی کیا وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ میرے قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس نو عمر لڑکے پے یہ عنائیت کسی خاص مقصد کے لیے ہی کی جاتی ہے۔ تا کہ اس کے اخراجات بڑھاے جا سکیں اور اس کو زیادہ سے زیادہ ٹریڈنگ پہ امادہ کیا جا سکے اس ترغیب کے ساتھ کہ اگر اس کو اپنے اخراجات پورے کرنے ہیں تو اس کو اپنے کلائینٹس کو امادہ کرنا پڑے گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ٹریڈنگ پر بھی لب کشائی نہ کر سکیں۔
جس لڑکے کو تربیت صرف مارکیٹنگ کی دی گئی جس کو لالچ یہ دیا گیا کہ اس کے کلائینٹس جتنی زیادہ ٹریڈز کریں گے اس کو کمیشن اتنا ہی زیادہ ملے گااور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس کے کلائینٹس ایک مخصوص تعداد سے زیادہ ٹریڈز اگر کریں گے تو اس کو بونس من و سلویْ کی طرح ملے گا تو وہ کیسے اپنے آپ کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچے گا۔مگر افسوس صد افسوس کے ہمارا انوئیسٹر اسی لڑکے سے امید لگا کہ بیٹھا ہوتا ہے کہ وہ لڑکا یا بروکر اس کو کال کرئے گا اور اس کی دی ہوئے ٹپ سے وہ انوئیسٹر کمائے گا۔فیصلہ آپ کو کرنہ ہے کہ آیا آپ ایس روش پہ چلتے ہوئے اپنا پیسہ ڈوبونا چاہتے ہیں یا پھر خود مارکیٹ میں روزانہ تھوڑی دیر ریسرچ کر کہ کچھ کمانا چاہتے ہیں۔ایک دلچسپ امر اور بھی آپ کے گوش گزار کرتا چلوں کہ شروع شروع میں لڑکے کی جگہ کچھ بروکریج ہاوسز میں اس کے مینجر بھی ٹریڈز کروا رہے ہوتے ہئں پر خدارا کسی غلط فہمی میں مت پڑئے گا وہ کلائینٹس کے لیے نہیں بلکہ لڑکے کے لیے ٹریڈ کر رہے ہوتے ہیں وہ اس کو سکھا رہے ہوتے ہں کہ زیادہ سے زیادہ ٹریڈز کیسے کرنی ہیں(زیادہ سے زیادہ انڈے کیسے دینے ہیں) اس تکنیک کو بروکریج انڈسٹری کی زبان میں کتے کے منہ کو خون لگانہ بولا جاتا ہے۔ اور تشبیح یہ دی جاتی ہے کہ جب منہ کو کمیشن کا خون ایک بار لگ گیا تو پھر یہ خود ہی ہمارے لیے اور اپنے لیے شکار کرے گا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پوری دنیا میں بروکریج انڈسٹری کو جوائن کرنے کے لئے پہلے مخصوص تعلیمی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے پر پاکستان میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔
اب تک کافی لوگوں کو یہ شائبہ پیدا ہو چکا ہو گا کہ اتنی لمبی تحریر پڑھنے کے بعد تو انہیں سٹاک ٹریڈنگ سے ویسے ہی توبہ کر لینی چاہیے تو ایسا سوچنا بلکل غلط ہے آپ ٹریڈنگ کر سکتے ہیں اور آپ کو کرنی بھی چاہیے پر ایسے نہیں کہ (نمازیں بخشانے آے اور روزے گلے پڑ گئے) مطلب یہ کے کچھ کمانے کے لئے انوئسٹ کیا پر اپنا اصل کیپٹل ہی نقصان میں اڑا دیا۔ اگر آپ سٹاک مارکیٹ میں کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کہ کچھ ٹائم نکالنا پڑے گا اپنے روز مرہ کے کاموں سے زیادہ نہ سہی صرف ایک گھنٹہ روزانہ۔آپ کو اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے کیوں کہ زمین سے نکلنی والی ہر چیز پر ہر کسی کا برابر کا حق ہے پر یہ بھی یاد رکھیے گا کہ حق لینے کے لیے خود کو حقدار ثابت کرنا پڑتا ہے۔اور میں نے کہیں پڑھا تھا کہ دولت کا اصول ہے کہ یہ ناقابل ہاتھوں سے قابل ہاتھوں کی طرف جایا کرتی ہے۔
انشاءاللہ اگر زندگی نے موقع دیا تو اس تحریر کے اگلے حصوں میں ان سب موضوعات پر حسب استطاعت بات کرنے کی کوشش کروں گا کہ لوگ سٹاک مارکیٹ میں نقصان کیوں اور کیسے کرتے ہیں اور سٹاک مارکیٹ کو کیسے سیکھا جاسکتاہے۔ (جاری ہے)۔۔۔۔۔۔